Who is Hakeem Muhammad Musa Amritsari | Part-1

 حکیم محمد موسی امرتسری


تحریر: ڈاکٹر خواجہ عابد نظامی


حکیم صاحب سے میری پہلی ملاقات 1959ء میں ہوئی۔ میں لوہاری گیٹ کے باہر مولوی شمس الدین (تاجر کتب نادرہ) کی دوکان پر بیٹھا کتابیں دیکھ رہا تھا کہ ایک صاحب وہاں آئے۔ فربہ جسم، کلین شیو، جسم پر شلوار قمیص اور کوٹ۔ مولوی شمس الدین آگے بڑھ کر انہیں تپاک سے ملے۔ بے تکلفی سے پوچھا: کدھر سیر ہو رہی ہے؟

نوارد نے کہا: داتا صاحب کے ہاں آیا تھا۔ اب مولوی صاحب میری طرف متوجہ ہوئے اور نووارد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگے:

بھئی آپ ان سے واقف نہیں؟

 اگلے ہی لمحے حکیم صاحب کا ہاتھ میرے ہاتھ میں تھا، بولے:

میرا نام محمد موسیٰ ہے"

 میں عابد نظای ہوں۔“

اخاہ کہتے ہوئے انہوں نے میرا ہاتھ گرمجوشی سے دبایا اور کہا: آپ کے مضامین تو اخبارات میں دیکھتا رہتا ہوں۔

خانقاہ شمیہ میں حکیم محمد موسی امرتسر سے بظاہر یہ سرسری کی ملاقات تھی، جو مستقبل میں گہرے تعلقات کا پیش خیمہ بن گئی۔

اس زمانے میں حکیم صاحب کا مطب رام گلی میں تھا، جسے وہ آرام گلی کہا کرتے تھے اور خط و کتابت کرتے وقت ایڈریس میں یہی لکھا کرتے تھے۔ ان کا پتہ بڑا مختصر تھا: ” حکیم محمد موسیٰ امرتسری آرام گلی لاہور"۔


Who is Hakeem Muhammad Musa Amritsari


اس زمانے میں بھی حکیم صاحب کا مطب اہل علم کا مرکز تھا۔ پیر غلام دستگیر نامی، عبداللہ قریشی، مولانا علم الدین ، شیخ اسماعیل پانی پتی، قاضی عبد النبی کوکب اور مولانا محمد سعید نقشبندی جیسے اہل علم حضرات ان کے ہاں اکثر آتے تھے۔ پھر طرہ یہ کہ حکیم صاحب کے ان ملنے والوں میں سے ہر مذہب و ملت کے اصحاب شامل تھے۔ وہ ہر گروہ اور طبقہ کے لوگوں سے نہایت اخلاق کے ساتھ ملتے تھے۔ پیار اور محبت کا یہ فن انہوں نے صوفیاء کرام سے سیکھا تھا۔

شاید 1961ء کا سن تھا، مولوی شمس الدین تاجر کتب نادرہ کا اچانک انتقال ہو گیا تو "خانقاه شمیہ" کے حاضر باشوں نے اس صدمہ کو بہت محسوس کیا۔ مولوی شمس الدین مرحوم کی دوکان اس وقت کتابی ذوق رکھنے والوں میں خانقاہ شمیہ“ کے نام سے معروف تھی۔ کتابوں کے رسیا دن بھر یہاں آتے رہتے تھے۔ مولوی صاحب کے چالیسویں پر ہم نے ان کی یاد میں ایک تعزیتی جلسہ منعقد کیا۔ اس جلسہ کے مہتم خصوصی حکیم صاحب تھے۔ قاضی عبد النبی کوکب مرحوم، پروفیسر محمد اسلم مرحوم، علامہ اقبال احمد فاروقی اور راقم الحروف نے مقالات پڑھے۔ روستوں اور محسنوں کے ذکر خیر میں حکیم صاحب ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے۔


Hakeem Muhammad Musa Amritsari :

2 جون 1968ء کو برکت علی اسلامیہ ہال (بیرون موچی گیٹ لاہور میں انجمن صداقت اسلام کی طرف سے حکیم صاحب نے ”یوم رضا کے نام سے ایک عظیم الشان اجلاس منعقد کرایا۔ جس میں قاضی عبدالنبی کوکب، مفتی اعجاز ولی رضوی، پیر محمد کرم شاہ الازہری وغیرہ نے مقالات پڑھے، میں نے بھی حکیم صاحب کے تعمیل ارشاد میں حضرت فاضل بریلوی کی نعتیہ شاعری پر ایک طویل مضمون لکھا، جو کہ حکیم صاحب نے اپنے لازوال ”مقالات یوم رضا" کے نام سے ایک بہترین کتابی صورت میں شائع کیا۔ مولانا بریلوی رحمتہ اللہ علیہ کی نعتیہ شاعری پر غالبا یہ پہلا تفصیلی مضمون تھا۔ مقالات يوم رضا کی اشاعت پر ایک افسوسناک صورت حال یہ بھی پیش آئی کہ مولانا کوکب مرحوم نے ”مقالات یوم رضا کے لئے تقدیم کے زیر عنوان جو دیباچہ لکھا تھا اس کے بعض مندرجات سے قبلہ حکیم صاحب کو اختلاف ہوا۔ اقفان حال کو اس کا بخوبی علم ہے، اس لئے یہاں اس کا تذکرہ ضروری نہیں۔

انہی دنوں جب میں حضرت فاضل بریلوی کی نعتیہ شاعری بر مقالہ لکھ رہا تھا کسی صاحب نے مجھے بتایا کہ حضرت مولانا سید ابو البرکات کی زبانی اس نے مولانا فاضل بریلوی اور مولانا محسن کاکوروی کی ایک ملاقات کا حال سنا ہے، میں نے سوچا کیوں نہ یہ واقعہ خود حضرت مولانا کی خدمت میں حاضر ہو کر ان کی زبانی سنا جائے۔ میں نے حکیم صاحب سے اس کا ذکر کیا، انہیں بھی یہ تجویز پسند آئی چنانچہ ہم دونوں ایک روز مغرب کے بعد مدرسہ حزب الاحناف (واقعہ چنگڑہ محلہ اندرونی دہلی دروازہ) حاضر ہوئے- یہاں پہلے ہم نے حضرت مولانا سید دیدار علی شاہ صاحب کے مزار اقدس پر فاتحہ پڑھی۔ پھر سیڑھیاں چڑھ کر مولانا کی خدمت میں پہنچے۔ وہ اس وقت ایک طالب علم کو حدیث شریف پڑھا رہے تھے۔ فارغ ہوئے تو ہم نے آنے کا مقصد بیان کیا اور گزارش کی کہ وہ مولانا بریلوی اور مولانا کاکوروی کی ملاقات کا حال میں سنائیں۔ مولانا بہت خوش ہوئے اور فرمایا آپ نے بہت اچھا کیا جو یہاں تشریف لائے اور محض سنی سنائی بات کو بغیر تحقیق کے آگے نہیں پہنچایا۔ پھر انہوں نے اس قران السعدین کا حال اس طرح بیان فرمایا: " جب مولانا محسن کاکوردی نے واقعہ 'معراج' کے بارے میں اپنا یہ مشہور قصیدہ لکھا :


" سمت کاشی سے چلا جانب متھرا بادل

برق کے کاندھے پر لائی ہے صبا گنگا جل "


 تو اس کو منانے کے لئے بریلی میں مولانا احمد رضا خاں صاحب کے پاس آئے۔ ظہر کے وقت دو تین شعر سننے کے بعد طے ہوا کہ حضرت محسن کا پورا قصیدہ عصر کی نماز کے بعد اطمینان سے سنا جائے۔ اسی روز عصر کی نماز سے قبل مولانا احمد رضا نے خود ایک 'قصیده معراجیہ' لکھا، اس خیال سے کہ مولانا محسن کاکوروی مہمان ہیں، ان کے قصیدہ سنانے سے ہے میں ان کی خدمت میں اپنا یہ قصیدہ سناؤں گا۔


نماز عصر کے بعد جب دونوں بزرگ اکٹھے ہوئے تو مولانا بریلوی نے حضرت محسن سے كہا حضرت! پہلے میرا قصیدہ معراجیہ سن لیجئے۔ یہ کہہ کر مولانا نے اپنا نو تصنیف قصیدہ سنایا۔


" وہ سرور کشور رسالت جو عرش پر جلوہ گر ہوۓ تھے

نئے نرالے طرب کے ساماں عرب کے مہمان کے لئے تھے "


مولانا محسن کاکوروی قصیدہ کے اشعار سن کر جھومتے رہے۔ جب یہ قصیدہ ختم ہوا تو مولانا محسن نے اپنا قصیدہ لپیٹ کر جیب میں رکھ لیا اور کہا، حضرت! آپ کے اس بے مثال قصیدے کے بعد میں اپنا قصیدہ نہیں سنا سکتا۔

میں اور حکیم صاحب دونوں حضرت مولانا ابو البرکات کی زبان سے یہ دلچسپ واقعہ سن کر بہت خوش ہوئے۔ کچھ دیر بعد ہم نے مولانا سے اجازت لی۔ واپسی میں حکیم صاحب نے مجھے کہا کہ مقالے میں اس واقعے کا ذکر ضرور کیجئے گا۔ بھلا یہ واقعہ ہمیں مولانا کے علاوہ اور کون سنا سکتا تھا۔

جاری ہے۔

No comments:

Post a Comment

Please Avoid To Enter Spam Links in the Comment Box.