Who is Hakeem Muhammad Musa Amritsari | Part-2

Hakeem Muhammad Musa Amritsari 2| Part-1

 حکیم صاحب کی نظر ملی مسائل پر بڑی گہری تھی۔ قومی و ملی تحریکوں کے لئے وہ اپنے انداز میں کام کرتے تھے۔ 1971ء میں اسلام اور سوشلزم کے در میان آویزش کا آغاز ہوا، تو حکیم صاحب مولانا محمد سعید نقشبندی کے ساتھ (جو اس زمانہ میں جامع مسجد حضرت شاہ غوث کے خطیب تھے) میرے ہاں تشریف لائے اور بڑی دردمندی سے فرمایا کہ اس وقت سوشلزم کے رو اور اسلام کی حقانیت ثابت کرنے کے لئے قلمی جہاد کی سخت ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں مجھے حکم دیا کہ میں اسلام، سوشلزم اور سرمایہ داری کے درمیان موازنہ کر کے اسلام کی حقانیت ثابت کروں۔ چنانچہ میں نے اس حکم کی تعمیل میں ایک طویل مقالہ لکھا جو حکیم صاحب اور مولانا نقشبندی نے "اسلام اور صرف اسلام" کے نام سے بڑی تعداد میں شائع کیا۔


Who is Hakeem Muhammad Musa Amritsari  | Part-2


حکیم صاحب بڑے مرنجاں مرنج انسان تھے، ان کے ملنے والوں میں ہر علم اور سطح کے لوگ شامل تھے۔ عالم فاضل بھی اور ان پڑھ لوگ بھی، امیر کبیر بھی اور فاقہ مست بھی۔ وہ سب سے ان کے مزاج کے مطابق محبت سے ملتے تھے۔ حکیم صاحب کے انہی ملنے والوں میں ایک صاحب حاجی عبدالحکیم تھے۔ آرام گلی میں ان کا سپرنگ بنانے کا کارخانہ تھا۔ مولانا حامد میاں کے مرید تھے، جو مولانا حسین احمد مدنی کے خلفاء میں سے تھے۔ حاجی صاحب ان پڑھ آدی تھے۔ مزارات پر حاضری کے قائل نہ تھے۔ ایک دفعہ کسی بیماری میں مبتلا ہوئے تو حکیم صاحب سے اپنا علاج کرایا۔ ایک روز اپنے نشہ امارت میں کہا: حکیم صاحب! مجھے اس بیماری سے ٹھیک کر دیں تو جو آپ کہیں گے، میں آپ کی خواہش پوری کروں گا۔

حکیم صاحب نے کہا:

کا وعدہ ہے؟

بولے:

اللہ کی قسم، پکا وعدو"

 حکیم صاحب نے کہا:

"مجھے اور خواجہ عابد صاحب کو اپنی کار میں پاک پتن شریف لے جاؤ گے" ؟

 یہ سن کر حاجی صاحب سوچ میں پڑ گئے کچھ لمحوں کے بعد بولے:

" آپ دونوں کو لے جاؤں گا لیکن خود مزار کے اندر نہیں جاؤں -"

حکیم صاحب نے یہ شرط مان لی۔ اللہ کا کرنا حاجی صاحب چند ہی روز میں ٹھیک ٹھاک ہوگئے۔ اور ہمیں اپنی نئی نویلی کار میں بٹھا کر پاکپتن شریف لے گئے۔ وہاں ہم دو روز حکیم صاحب کے بڑے بھائی حکیم شمس الدین صاحب کے ہاں ٹھہرے۔ پاک پتن شریف میں ہمارا زیادہ وقت دربار شریف میں گزرتا تھا، وہیں مسجد میں نمازیں ادا کرتے، قوالی سنتے۔ حاجی صاحب نماز تو ہمارے ساتھ ادا کر لیتے، لیکن روضہ شریف میں حاضری کے وقت اور قوالی کے وقت دور جا بیٹھے۔ کہنے کو تو ان پڑھ تھے، لیکن اللہ نے ذہن رسا دیا تھا۔ آخر اتنا بڑا کارخانہ چلاتے تھے۔ دربار شریف میں جب انہوں نے وہاں کا پاکیزہ ماحول دیکھا تو ان کا دل بہت متاثر ہوا۔ انہوں نے اپنے حلقہ احباب سے سن رکھا تھا کہ وہاں دربار میں بڑا شرک ہوتا ہے، لوگ سجدے کرتے ہیں، یہ کرتے ہیں وہ کرتے ہیں، لیکن یہاں دو روز رہ کر انہوں نے دیکھا کہ یہاں تو لوگ نماز پڑھتے ہیں درود و سلام پڑھتے ہیں، نعتیں پڑھتے اور سنتے ہیں۔ تیسرے روز ہم روضہ شریف کے اندر جانے لگے۔ تو حاجی کہنے لگے : میں بھی آپ لوگوں کے ساتھ روضہ شریف کے اندر جاؤں گا۔ آخر ہمارے ساتھ وہاں حاضری دی۔ اور فاتحہ پڑھ کر خوب روئے۔ باہر آ کر کہنے لگے : حکیم صاحب کی دوائی نے جسمانی روگ گنوایا تھا، بابا فرید شکر نے روحانی علاج فرمایا ہے۔ بخدا مجھے زندگی میں ایسا سکون بہت کم نصیب ہوا ہے۔ میں نے کہا : حاجی صاحب! اسے بھی حکیم صاحب ہی کا فیض سمجھیے۔


پاک پتن شریف سے واپسی پر میں نے کہا اب ہڑپہ بھی ہوتے چلیں تاکہ کار سے آئے ہیں تو یہ تاریخی جگہ بھی دیکھتے چلیں۔ حکیم صاحب نے اس تجویز کو پسند کیا اور ہم تینوں ہڑپہ کا میوزیم دیکھنے گئے۔ میرے علم میں نہ تھا کہ یہاں کے قدیم آثار اور تہذیب کے بارے میں بھی حکیم صاحب کی معلومات خاصی ہیں۔ ہم دونوں ان کے علم سے مستفید ہوئے۔


میں نے اپنی زندگی کے بدترین سال "ضیائے حرم" کو ایڈٹ کرنے میں صرف کئے ہیں۔ بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ ماہنامہ ضیاۓ حرم کی ادارت میں نے حکیم صاحب کے کہنے پر قبول کی تھی۔ میں اس زمانے میں سیارہ ڈائجسٹ" کا مدیر معاون تھا۔ ایک روز حکیم صاحب نے مجھے فون کیا کہ تھوڑی دیر کے لئے میرے مطب میں آ جائیں ایک ضروری مشورہ کرنا ہے۔ میں وہاں پہنچا تو دیکھا پیر محمد کرم شاہ الازہری بھی وہیں بیٹھے ہیں ان دنوں پیر صاحب نے ماہنامہ 'ضیاۓ حرم' کا آغاز کیا تھا۔ غالبا" چند شمارے شائع بھی کئے تھے۔ اس کے شماره 'نخستیں' کے لئے میں نے بھی ایک مضمون "علامہ اقبال کے سرچشمہ ہائے تصوف" لکھا تھا جو شائع بھی ہوا۔ اب یہ خصوصی میٹنگ اسی رسالے کے بارے میں تھی۔ حکیم صاحب کی بڑی خواہش تھی کہ ہمارے حلقے سے بھی ایک معیاری رسالہ شائع ہوتا رہے۔ پیر صاحب نے بتایا کہ ہم نے بڑے شوق سے یہ رسالہ جاری کیا تھا، لیکن چونکہ اس راہ کے نشیب و فراز سے واقف نہ تھے اس لئے کامیاب نہیں ہو سکے۔ ہم پچیس سو کی تعداد میں رسالہ شائع کرتے ہیں، لیکن نا تجربہ کاری کے باعث سب گودام میں رکھا رہتا ہے۔ اس زمانے میں اردو ڈائجسٹ اور سیارہ ڈائجسٹ دو ہی بڑے ماہنامے تھے۔ میں نے ضیائے حرم کو کامیاب بنانے کے لئے پیر صاحب کو چند مشورے دیئے جو انہوں نے فورا" نوٹ کر لئے۔ میٹنگ ختم ہوئی تو پیر صاحب نے مجھے ڈھائی سو روپے پیش کئے۔ میں نے پوچھا: یہ کیا ہے؟

یہ آپ کی خدمت میں بطور نذر پیش کر رہا ہوں۔

 مگر میں تو پیر نہیں ہوں۔

مگر نظامی تو ہیں۔ پیر صاحب نے کہا۔ ”یہ روپے اسی نسبت عالی کی وجہ سے پیش کر رہا ہوں۔


آخر حکیم صاحب کے کہنے پر میں نے یہ روپے قبول کر لئے۔ پیر صاحب نے فرمایا کہ مشوروں کا یہ سلسلہ جاری رہنا چاہئے۔ میں نے اس کی ہامی بھر لی، لیکن کئی روز کے بعد حکیم صاحب نے کہا کہ کیا ہی اچھا ہو کہ آپ سیارہ ڈائجسٹ کے بجائے ضیاۓ حرم کی ادارت سنبھال لیں۔ میری نظر میں دوسرا کوئی ایسا آدمی نہیں ہے، جو اہل سنت کے اس رسالے کو قرینہ کے ساتھ ایڈٹ کر سکے۔

حکیم صاحب کے اس حکم پر میں نے لبیک کہا اور سولہ سال تک نہایت خلوص سے لوجہ اللہ ماہنامہ ضیائے حرم کی ادارتی ذمہ داری نبھائی۔ حکیم صاحب کی وفات کی خبر ملی تو میں نے دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کی بار الها! اگر تیرے دربار میں ”ضیائے حرم" کے حوالے سے میری خدمت قبول ہوئی ہو، تو اس کا اجر حکیم اہل سنت کو ضرور دینا کہ مجھے اس راہ پر گامزن کرنے والے وہی تھے۔ یہ حکیم صاحب کے لئے میری طرف سے فی البدیہہ ایصال ثواب تھا۔ ان پر اللہ کی ہزاروں رحمتیں ہوں۔ آمین

No comments:

Post a Comment

Please Avoid To Enter Spam Links in the Comment Box.